اے اللہ‘ ہم پہ رحم کر کہ ہم تیرے رحم و کرم کے مستحق ہیں۔ ستر سال سے اوپر ہونے کو آئے ہیں اور ہم ظالم و ناانصافی کی چکی میں پس رہے ہیں‘ کوئی ہم پہ رحم کرنے والا نہیں‘ کوئی ہماری فریاد سننے والا نہیں۔ ہم کس در پہ جائیں‘ کس سے اپنا دکھڑا روئیں‘ اگر تو ہماری نہیں سنے گا تو پھر ہمارا سننے والا کون ہے؟ اے مالک! ہم اپنے رہنمائوں اور لیڈروں اور حکمرانوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔ ان کے حق میں نعرے لگاتے لگاتے ہمارے حلق سوکھ کر کانٹا ہو چکے ہیں‘ ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ہمارے پائوں تھک چکے ہیں‘ ہمارے جسموں پہ تھکن طاری ہو چکی ہے لیکن منزل آج بھی نظروں سے اوجھل ہے۔ اے پروردگار‘ ہمارے رہنمائوں اور حکمرانوں کو ہدایت عطا فرما۔ ان کو درد دل عطا کر دے‘ سوز جگر بخش دے تاکہ یہ ہمارے حال پہ مہربان ہو جائیں۔ ہم سے انسان دوستی کا معاملہ کریں۔ ہمارے لیے ان کے اندر سختی اور سنگدلی نہ ہو‘ بے حسی اور بے دردی نہ ہو۔ اے مالک الملک‘ اس کائنات پہ تیرا ہی حکم چلتا ہے اور ہمیں یقین کامل ہے کہ تیرے حکم کے بغیر درخت کا ایک پتا بھی نہیں ہلتا تو پھر ہم اتنے بدحال کیوں؟ ہماری حالت اتنی درماندہ کیوں؟ ہم اتنے بدنصیب کیوں؟ اے پروردگار‘ یہ ملک ہمارے پرکھوں نے تیرے ہی نام پہ حاصل کیا اور اس کے لیے اپنے جان و مال کی قربانیاں دیں۔ انہوں نے نعرے لگائے پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ ۔ تیرے نام پہ حاصل ہونے والے ملک میں اب تک طاغوت کا اور باطل کا راج رہا۔ ہم یہاں عدل کا نظام قائم نہ کر سکے۔ دنیا اور مال کی محبت نے ہمیں اندھا کر دیا اور ہم صحیح طور پر دیکھنے‘ سننے اور محسوس کرنے کے قابل نہ رہے یہاں تک کہ ہم تیری کتاب کے بقو ل جانور بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہو گئے۔ اے مالک! ہم تیرے محتاج ہیں۔ ہمیں اچھے اور سچے رہنما‘ دردمند دل کے مالک حکمران‘ اچھے علما‘ اچھے اساتذہ اور اچھے والدین کیوں نہ مل سکے۔؟ کیا اس لیے کہ ہمارے اعمال اچھے نہ تھے مگر ہم بھی کیا کرتے اور کیسے کرتے کہ ہدایت دینے والی ذات تیری ہے، تیرے سوا ہمیں ہدایت دینے والا کون ہے؟ آج ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہم ہر نعرے لگانے و الے کے پیچھے چل پڑتے ہیں‘ جو بھی ہمیں سبز باغ دکھاتا ہے‘ ہم اس کی رہنمائی کو قبول کرکے اسے سینے سے لگا لیتے ہیں‘ اسے کندھوں پہ بٹھا لیتے ہیں۔ ہم آج بھی اپنے راہبر کو نہیں پہچانتے۔ ہم آج بھی اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں‘ یہاں تک کہ ہم دیکھنے سننے اور سمجھنے بلکہ صحیح طور پر محسوس کرنے کے بھی قابل نہیں رہے۔ ستر برس سے اوپر ہونے کو آئے ہیں‘ غربت‘ بیروزگاری‘ ظلم و استحصال اور ناانصافی‘ بدعنوانی اور بدمعاشی نے ہمارا جینا اجیرن کر رکھا ہے۔ ہمارے ایوان عدل تاریک اور بے رحمی و بے حسی کا مسکن بن چکے ہیں‘ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمیں بے پناہ اور بے یارومددگار کر چکے ہیں‘ فیصلہ سازی اور قانون سازی کرنے والے اعلیٰ ادارے چیخ و پکار اور ہنگامہ آرائی کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ہماری درس گاہیں جہل کا سرٹیفکیٹ بانٹنے پر مامور ہیں‘ فقہی اختلافات سے اتحاد ملت پارہ پارہ ہو رہا ہے۔ ہمارے بازار اور تجارت گاہیں حرص و ہوس کا منبع ہیں۔ ہماری شاہراہیں اور سڑکیں حادثات اور قانون شکنی کا دردناک نظارہ پیش کرتی ہیں۔ ہمارے محراب و منبر ہمارے نشریاتی اور بصری ادارے ایک دوسرے کی کردار کشی اور ایک دوسرے کی دل شکنی اور دل آزاری کے ذریعے معاشرتی فضا کو پراگندہ کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اے سارے جہانوں کے مالک اور خالق! ہمیں زوال و انحطاط کی ان گہرائیوں سے کون نکالے گا؟ ہم اپنی اس ابتر حالت کو کیسے بہتر کرسکیں گے؟ یہاں تو رہنمائوں کی زبان پہ اپنی بڑائی اور اپنی بزرگی کے دعوے ہی دعوے ہیں۔ حقیقی دردمندی‘ حقیقی اصلاح اور حقیقی نجات کی کوئی صورت دکھائی ہی نہیں دیتی۔ہم عوام محض استعمال ہونے کے لیے ہیں کہ ہمیں ہمارے لیڈر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کریں اور پھر ڈسٹ بن میں پھینک دیں۔ قرنوں اور دہائیوں سے یہی ہورہا ہے۔ کوئی ہمیں روٹی روزی کے نام پہ بے وقوف بناتا ہے‘ کوئی اسلام کا نام لے کراپنا الوسیدھا کرتا ہے‘ کوئی آئین و جمہوریت کے نام پہ ہمیں ذبح کراتا ہے اور کوئی ہماری کنپٹی پہ بندوق رکھ کے ہم پہ حکومت کرتا ہے۔ ہم عوام اپنے سیاسی لیڈروں کے انتخابی ڈبوں کو اپنے ووٹوں سے بھرنے کے لیے ہیں اور انتخابات کے بعد یہ دیکھنے اور سننے کے لیے ہیں کہ کس لیڈر نے کتنے ارب کمائے‘ کتنی جائیداد بنائی اور حکومت میں آ کر کتنے مفادات حاصل کئے۔ اے پروردگار! اگر اپنے حکمرانوں کو اپنے غلط کار اور بذخود غلط حکمرانوں کو چننے کے ذمہ دار ہم ہی ہیں تو ایسا اس لیے ہے کہ ہم علم کی روشنی سے محروم ہیں اور ہماری عقل ہمارے سیاستدانوں اور رائے عامہ کے لیڈروں نے سلب کرلی ہے۔ ہم نہ صحیح طور پر سوچ سکتے ہیں اور نہ صحیح فیصلہ ہی کرسکتے ہیں۔ اے مالک! ہمیں عقل عطا کر‘ علم کی روشنی عطا کر ہمیں وہ آنکھیں عطا کر جن سے ہم اپنے عیوب اور اپنی خامیوں کو دیکھ سکیں۔ اے ہمارے مالک! ہمیں ہماری تباہ حالی سے نجات دے۔ ہمیں فنا کے گہرے پاتال سے نکال دے‘ ہمیں درد و سوز سے معمور دل عطا کر‘ ہمیں اپنے ہم جنسوں کو اذیت دینے‘ ان کا حق مارنے اور ان سے رشک و حسد کا معاملہ کرنے سے بچالے۔ آج ہماری حالت اگر تباہ و برباد ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے ہی جیسے دوسرے بندوں کے حق میں درد مند اور مہربان نہیں رہے۔ لالچ‘ حرص و ہوس‘ بے ایمانی‘ احسان فراموشی‘ محسن کشی‘ خود غرضی اور اس جیسی دوسری اخلاقی بیماریوں کو اندر سے چاٹ لیا ہے‘ نتیجے میں ہم پہ ظالم حکمران‘ خود غرض اور بے ایمان حکمران مسلط کر دیئے گئے ہیں جن کی لوٹ کھسوٹ نے اس ملک کو مقروض‘ بدحالی اور کھوکھلا کر دیا ہے۔ اب نجات ہو تو کیسے‘ جب تک ہم ان کھوکھلے لیڈروں سے نجات حاصل نہیں کرتے‘ جب تک ہم ان کے پیچھے چلنے سے انکار نہیں کرتے تو بھی ہم پہ رحم نہیں کرے گا۔ اے پروردگار‘ اے نیکی اور اچھائی کی توفیق دینے والے معبود‘ اے گمراہوں کو ہدایت دینے والے خالق دوجہاں! اگر ہماری کوئی ادنیٰ سی نیکی بھی تجھے پسند آئی ہے تو اس کے صدقے تو ہمیں ہدایت کی نعمت عطا کر‘ ہمارے دکھ درد دور کردے‘ ہمیں سیدھے رستے پر چلا تاکہ یہ ملک اچھا ہو‘ اس کے حالات سدھر جائیں‘ یہ اسلام کا سب سے مضبوط قلعہ بن جائے۔ ٭٭٭٭٭